کشت دل ویراں سہی تخم ہوس بویا نہیں
خواہشوں کا بوجھ میں نے آج تک ڈھویا نہیں
اس کی آنکھوں میں بچھا ہے سرخ تحریروں کا جال
ایسا لگتا ہے کہ اک مدت سے وہ سویا نہیں
خواب کی انجان کھڑکی میں نظر آیا تھا جو
ذہن نے اس چہرۂ مانوس کو کھویا نہیں
ایک مدت پر ملے بھی تو نہ ملنے کی طرح
اس طرح خاموش ہو منہ میں زباں گویا نہیں
میں نے اپنی خواہشوں کا قتل خود ہی کر دیا
ہاتھ خون آلود ہیں ان کو ابھی دھویا نہیں
دیکھ کر ہونٹوں پہ میرے مسکراہٹ کی لکیر
وہ سمجھتے ہیں کہ اسلمؔ میں کبھی رویا نہیں
غزل
کشت دل ویراں سہی تخم ہوس بویا نہیں
اسلم آزاد