EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہوائیں شہر کی آلودۂ کثافت ہیں
یہ صاف ستھرا پن اور یہ نفاستیں جھوٹی

اسلم عمادی




ہزار راستے بدلے ہزار سوانگ رچے
مگر ہے رقص میں سر پر اک آسمان وہی

اسلم عمادی




نمی اتر گئی دھرتی میں تہہ بہ تہہ اسلمؔ
بہار اشک نئی رت کی ابتدا میں ہے

اسلم عمادی




تم مرے کمرے کے اندر جھانکنے آئے ہو کیوں
سو رہا ہوں چین سے ہوں ٹھیک ہے سب ٹھیک ہے

اسلم عمادی




تمہارے درد سے جاگے تو ان کی قدر کھلی
وگرنہ پہلے بھی اپنے تھے جسم و جان وہی

اسلم عمادی




انہیں یہ فکر کہ دل کو کہاں چھپا رکھیں
ہمیں یہ شوق کہ دل کا خسارہ کیونکر ہو

اسلم عمادی




نفرت سے ہے نفرت ہم کو پریت ہماری ریت
پیار کے ہیں انمول خزانے تتلی پھول اور میں

اسلم فیضی