EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نہیں وہ اتنا بھی پاگل نہیں تھا
جو مر جاتا مری وابستگی میں

عاصمہ طاہر




شام کھلتی ہے تیرے آنے سے
لب پہ تیرا سوال رکھتی ہے

عاصمہ طاہر




شہزادی کے کانوں میں جو بات کہی تھی اک تو نے
بعد ترے وہ بات ترے ہی افسانوں میں گونجتی ہے

عاصمہ طاہر




دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے

اسلم انصاری




ہم کو پہچان کہ اے بزم چمن زار وجود
ہم نہ ہوتے تو تجھے کس نے سنوارا ہوتا

اسلم انصاری




ہم نے ہر خواب کو تعبیر عطا کی اسلمؔ
ورنہ ممکن تھا کہ ہر نقش ادھورا ہوتا

اسلم انصاری




ہمارے ہاتھ فقط ریت کے صدف آئے
کہ ساحلوں پہ ستارہ کوئی رہا ہی نہ تھا

اسلم انصاری