EN हिंदी
بس ایک بار اسے روشنی میں دیکھا تھا | شیح شیری
bas ek bar use raushni mein dekha tha

غزل

بس ایک بار اسے روشنی میں دیکھا تھا

اسلم آزاد

;

بس ایک بار اسے روشنی میں دیکھا تھا
پھر اس کے بعد اندھیرا بہت اندھیرا تھا

وہ حال کا نہیں ماضی کا کوئی قصہ تھا
جب اپنے آپ میں میں ٹوٹ کر بکھرتا تھا

نہ منزلوں کی طلب میں لہو لہو تھے بدن
نہ راستوں کے لئے کوئی آہ بھرتا تھا

وہ مجھ کو سونپ گیا منزلوں کی محرومی
جو ہر قدم پہ مرے ساتھ ساتھ چلتا تھا

نہ دشت و در سے الگ تھا نہ جنگلوں سے جدا
وہ اپنے شہر میں رہتا تھا پھر بھی تنہا تھا