بس ایک بار اسے روشنی میں دیکھا تھا
پھر اس کے بعد اندھیرا بہت اندھیرا تھا
وہ حال کا نہیں ماضی کا کوئی قصہ تھا
جب اپنے آپ میں میں ٹوٹ کر بکھرتا تھا
نہ منزلوں کی طلب میں لہو لہو تھے بدن
نہ راستوں کے لئے کوئی آہ بھرتا تھا
وہ مجھ کو سونپ گیا منزلوں کی محرومی
جو ہر قدم پہ مرے ساتھ ساتھ چلتا تھا
نہ دشت و در سے الگ تھا نہ جنگلوں سے جدا
وہ اپنے شہر میں رہتا تھا پھر بھی تنہا تھا
غزل
بس ایک بار اسے روشنی میں دیکھا تھا
اسلم آزاد