کوئی دیوار سلامت ہے نہ اب چھت میری
خانۂ خستہ کی صورت ہوئی حالت میری
میرے سجدوں سے منور ہے تری راہ گزر
میری پیشانی پہ روشن ہے صداقت میری
اور کچھ دیر یوں ہی مجھ کو تڑپنے دیتے
آپ نے چھین لی کیوں ہجر کی لذت میری
یہ الگ بات کہ میں فاتح اعظم ٹھہرا
ورنہ ہوتی رہی ہر گام ہزیمت میری
میں نے ہر لمحہ نئی جست لگائی اسلمؔ
مجھ سے وابستہ رہی پھر بھی روایت میری
غزل
کوئی دیوار سلامت ہے نہ اب چھت میری
اسلم آزاد