EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ذرا سی بات پہ کیا کیا فسانہ سازی ہے
میں خود بھی چاہتا کب تھا کہ داستاں نہ بنے

اسلم انصاری




اپنا مکان بھی تھا اسی موڑ پر مگر
جانے میں کس خیال میں اوروں کے گھر گیا

اسلم آزاد




دھوپ کے بادل برس کر جا چکے تھے اور میں
اوڑھ کر شبنم کی چادر چھت پہ سویا رات بھر

اسلم آزاد




دوستوں کے ساتھ دن میں بیٹھ کر ہنستا رہا
اپنے کمرے میں وہ جا کر خوب رویا رات بھر

اسلم آزاد




ہمارے بیچ وہ چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے
میں سوچتا ہوں مگر کچھ مجھے پتا نہ لگے

اسلم آزاد




ہزار بار نگاہوں سے چوم کر دیکھا
لبوں پہ اس کے وہ پہلی سی اب مٹھاس نہیں

اسلم آزاد




کسی طرح نہ طلسم سکوت ٹوٹ سکا
وہ دے رہا تھا بہت دور سے صدا مجھ کو

اسلم آزاد