راستہ سنسان تھا تو مڑ کے دیکھا کیوں نہیں
مجھ کو تنہا دیکھ کر اس نے پکارا کیوں نہیں
دھوپ کی آغوش میں لیٹا رہا میں عمر بھر
مہرباں تھا وہ تو مثل ابر آیا کیوں نہیں
ایک پنچھی دیر تک ساحل پہ منڈلاتا رہا
مضطرب تھا پیاس سے لیکن وہ اترا کیوں نہیں
قرب کی قوس قزح کمرے میں بکھری تھی مگر
رات بھر رنگ تمنا پھر بھی نکھرا کیوں نہیں
مجھ کو پتھر میں بدلتے چاہے خود بن جاتے وہ موم
خواہش طفل تمنا کو جگایا کیوں نہیں
اس کو تنہا پا کے اسلمؔ رات اپنے روم میں
قطرۂ خون ہوس آنکھوں میں آیا کیوں نہیں

غزل
راستہ سنسان تھا تو مڑ کے دیکھا کیوں نہیں
اسلم آزاد