آنکھوں سے میں نے چکھ لیا موسم کے زہر کو
لیکن وجود سہہ نہ سکا اس کے قہر کو
پھینکا تھا کس نے سنگ ہوس رات خواب میں
پھر ڈھونڈھتی ہے نیند اسی پچھلے پہر کو
مٹی کے سب مکان زمیں دوز ہو گئے
نقشے میں اب تلاش کرو اپنے شہر کو
دریائے شب کا ٹوٹ گیا ہے سکوت آج
مدت کے بعد دیکھ کے کرنوں کی نہر کو
سائے کے ساتھ وقت کے دوڑا وہ دیر تک
پلکوں میں پھر چھپا لیا لمحوں کے قہر کو
پیمانۂ گلاب کو ہونٹوں سے چوم کر
مٹھی میں قید کر لیا خوشبو کی لہر کو
غزل
آنکھوں سے میں نے چکھ لیا موسم کے زہر کو
اسلم آزاد