ساتھ جو دے نہ سکا راہ وفا میں اپنا
بے ارادہ بھی اسے یاد کیا ہے برسوں
انوار الحسن انوار
سکون دل نہ میسر ہوا زمانے میں
نہ یاد رکھنے میں تم کو نہ بھول جانے میں
انوار الحسن انوار
وہ اضطراب مسلسل کا لطف کیا جانے
مصیبتوں سے جو گھبرا گیا زمانے میں
انوار الحسن انوار
یہ اودھ ہے کہ جہاں شام کبھی ختم نہیں
وہ بنارس ہے جہاں روز سحر ہوتی ہے
انوار الحسن انوار
بس وہی اشک مرا حاصل گریہ ہے عقیلؔ
جو مرے دیدۂ نمناک سے باہر ہے ابھی
عقیل عباس جعفری
ہر عشق کے منظر میں تھا اک ہجر کا منظر
اک وصل کا منظر کسی منظر میں نہیں تھا
عقیل عباس جعفری
اب بھی کچھ لوگ محبت پہ یقیں رکھتے ہیں
ہو جو ممکن تو انہیں دیس نکالا دے دو
عقیل دانش

