EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ساتھ جو دے نہ سکا راہ وفا میں اپنا
بے ارادہ بھی اسے یاد کیا ہے برسوں

انوار الحسن انوار




سکون دل نہ میسر ہوا زمانے میں
نہ یاد رکھنے میں تم کو نہ بھول جانے میں

انوار الحسن انوار




وہ اضطراب مسلسل کا لطف کیا جانے
مصیبتوں سے جو گھبرا گیا زمانے میں

انوار الحسن انوار




یہ اودھ ہے کہ جہاں شام کبھی ختم نہیں
وہ بنارس ہے جہاں روز سحر ہوتی ہے

انوار الحسن انوار




بس وہی اشک مرا حاصل گریہ ہے عقیلؔ
جو مرے دیدۂ نمناک سے باہر ہے ابھی

عقیل عباس جعفری




ہر عشق کے منظر میں تھا اک ہجر کا منظر
اک وصل کا منظر کسی منظر میں نہیں تھا

عقیل عباس جعفری




اب بھی کچھ لوگ محبت پہ یقیں رکھتے ہیں
ہو جو ممکن تو انہیں دیس نکالا دے دو

عقیل دانش