تو اس نگاہ سے پی وقت مے کشی تاباںؔ
کی جس نگاہ پہ قربان پارسائی ہو
انور تاباں
یہ یقیں ہے کی میری الفت کا
ہوگا ان پر اثر کبھی نہ کبھی
انور تاباں
حجاب ان سے وہ میرا پوچھنا سر رکھ کے قدموں پر
سبب کیا ہے جو یوں مجھ سے خفا سرکار بیٹھے ہیں
انوری جہاں بیگم حجاب
کہاں ممکن ہے پوشیدہ غم دل کا اثر ہونا
لبوں کا خشک ہو جانا بھی ہے آنکھوں کا تر ہونا
انوری جہاں بیگم حجاب
ملنے کے بعد بیٹھ رہا پھیر کر نگاہ
ظالم یگانہ ہوتے ہی بیگانہ ہو گیا
انوری جہاں بیگم حجاب
محیط رحمت ہے جوش افزا ہوئی ہے ابر سخا کی آمد
خدا کی ہر چیز کہہ رہی ہے کہ اب ہے نور خدا کی آمد
انوری جہاں بیگم حجاب
قیامت تھا ستم تھا قہر تھا خلوت میں او ظالم
وہ شرما کر ترا میری بغل میں جلوہ گر ہونا
انوری جہاں بیگم حجاب

