اب ترے ہجر میں یوں عمر بسر ہوتی ہے
شام ہوتی ہے تو رو رو کے سحر ہوتی ہے
کیوں سر شام امیدوں کے دیئے بجھنے لگے
کتنی ویران تری راہ گزر ہوتی ہے
بے خیالی میں بھی پھر ان کا خیال آتا ہے
وہی تصویر مرے پیش نظر ہوتی ہے
یہ اودھ ہے کہ جہاں شام کبھی ختم نہیں
وہ بنارس ہے جہاں روز سحر ہوتی ہے
اپنے برباد نشیمن کو بھلا دیتا ہوں
جب سلگتے ہوئے گلشن پہ نظر ہوتی ہے
برق گرتی ہے تو خرمن کو جلا جاتی ہے
کب اسے محنت دہقاں کی خبر ہوتی ہے
ہائے پھولوں کے مقدر پہ بھی دل روتا ہے
زندگی ان کی بھی کانٹوں میں بسر ہوتی ہے
عارض غنچہ و گل اور دہک اٹھتے ہیں
اشک شبنم میں بھی تاثیر شرر ہوتی ہے
میں وہ محروم محبت ہوں کہ انوارؔ مری
جو دعا ہے وہی محروم اثر ہوتی ہے
غزل
اب ترے ہجر میں یوں عمر بسر ہوتی ہے
انوار الحسن انوار