زیست کرنا در ادراک سے باہر ہے ابھی
یہ ستارہ مرے افلاک سے باہر ہے ابھی
ڈھونڈتے ہیں اسی نشے کو سبھی بادہ گسار
ایک نشہ جو رگ تاک سے باہر ہے ابھی
ایک ہی لمحے میں تسخیر کرے گی اسے آنکھ
پر وہ لمحہ مرے افلاک سے باہر ہے ابھی
کچھ مرے چاک گریباں کو خبر ہو شاید
ایک گردش جو مرے چاک سے باہر ہے ابھی
بس وہی اشک مرا حاصل گریہ ہے عقیلؔ
جو مرے دیدۂ نمناک سے باہر ہے ابھی
غزل
زیست کرنا در ادراک سے باہر ہے ابھی
عقیل عباس جعفری