EN हिंदी
زیست کرنا در ادراک سے باہر ہے ابھی | شیح شیری
zist karna dar-e-idrak se bahar hai abhi

غزل

زیست کرنا در ادراک سے باہر ہے ابھی

عقیل عباس جعفری

;

زیست کرنا در ادراک سے باہر ہے ابھی
یہ ستارہ مرے افلاک سے باہر ہے ابھی

ڈھونڈتے ہیں اسی نشے کو سبھی بادہ گسار
ایک نشہ جو رگ تاک سے باہر ہے ابھی

ایک ہی لمحے میں تسخیر کرے گی اسے آنکھ
پر وہ لمحہ مرے افلاک سے باہر ہے ابھی

کچھ مرے چاک گریباں کو خبر ہو شاید
ایک گردش جو مرے چاک سے باہر ہے ابھی

بس وہی اشک مرا حاصل گریہ ہے عقیلؔ
جو مرے دیدۂ نمناک سے باہر ہے ابھی