اس مریض غم غربت کو سنبھالا دے دو
ذہن تاریک کو یادوں کا اجالا دے دو
ہم ہیں وہ لوگ کہ بے قوم وطن کہلائے
ہم کو جینے کے لئے کوئی حوالہ دے دو
میں بھی سچ کہتا ہوں اس جرم میں دنیا والو
میرے ہاتھوں میں بھی اک زہر کا پیالہ دے دو
اب بھی کچھ لوگ محبت پہ یقیں رکھتے ہیں
ہو جو ممکن تو انہیں دیس نکالا دے دو
وہ نرالے ہیں کرو ذکر تم ان کا دانشؔ
اپنی غزلوں کو بھی انداز نرالا دے دو
غزل
اس مریض غم غربت کو سنبھالا دے دو
عقیل دانش