سکون دل نہ میسر ہوا زمانے میں
نہ یاد رکھنے میں تم کو نہ بھول جانے میں
ہمیشہ وسعت افلاک میں رہا ہے غم
کہاں قیام ہے شاہیں کا آشیانے میں
عروج تیرگیٔ شب سے ہو سحر پیدا
یہی نظام ہے دنیا کے کارخانے میں
شفق کے خون کی سرخی بھی ہو گئی شامل
سحر بہ دوش ستاروں کے جھلملانے میں
ابھی بہار کا کچھ اور انتظار کرو
کہ تھوڑی دیر ہے کلیوں کے مسکرانے میں
یہ وہ متاع گراں ہے جو مل نہیں سکتی
سکون دل کی تمنا نہ کر زمانے میں
کبھی قرار دل بے قرار کو بھی ملے
الٰہی کون کمی ہے ترے خزانے میں
کسی سے کچھ بھی شکایت کروں تو کیا حاصل
ملا نہ کوئی وفا آشنا زمانے میں
گلوں کی بزم ہی رنگینیاں بہ دوش نہیں
ہر ایک نقش حسیں ہے نگار خانے میں
میں روندتا ہوا کانٹوں کو یوں گزرتا ہوں
کہ رہ رووں کو سہولت ہو آنے جانے میں
وہ ایک تم ہو کہ تم کو کسی نے کچھ نہ کہا
وہ ایک ہم ہیں کہ رسوا ہوئے زمانے میں
ترے خیال سے آتی نہیں جو لب پہ مرے
وہی تو کام کی اک بات تھی فسانے میں
وہ اضطراب مسلسل کا لطف کیا جانے
مصیبتوں سے جو گھبرا گیا زمانے میں
کچھ عندلیب کا خون جگر بھی ہے شامل
گلوں کی بزم کی رنگینیاں بڑھانے میں
ہمیں تو لذت آزار کے نہیں خوگر
انہیں بھی لطف سا آتا ہے کچھ ستانے میں
قصور ان کی نگاہوں کی شوخیوں کا بھی ہے
ہماری جرأت شوق و طلب بڑھانے میں
رہے گا مدتوں چرچا مرا زبانوں پر
کسی کی بزم سے انوارؔ اٹھ کے جانے میں
غزل
سکون دل نہ میسر ہوا زمانے میں
انوار الحسن انوار