EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

فطرت کا یہ ستم بھی ہے دانشؔ عجیب چیز
سر کیسے کیسے کیسی کلاہوں میں رکھ دیئے

عقیل دانش




میں بھی سچ کہتا ہوں اس جرم میں دنیا والو
میرے ہاتھوں میں بھی اک زہر کا پیالہ دے دو

عقیل دانش




شاید کہیں اس پیار میں تھوڑی سی کمی ہے
اور پیار میں تھوڑی سی کمی کم نہیں ہوتی

عقیل نعمانی




آندھیاں سب کچھ اڑا کر لے گئیں
پیڑ پر پتہ نہ پھل دامن میں تھا

عقیل شاداب




برائے نام سہی کوئی مہربان تو ہے
ہمارے سر پہ بھی ہونے کو آسمان تو ہے

عقیل شاداب




چادر میلی ہو گئی اب کیسے لوٹاؤں
اپنے پیا کے سامنے جاتے ہوئے شرماؤں

عقیل شاداب




گمان ہی اثاثہ تھا یقین کا
یقین ہی گمان میں نہیں رہا

عقیل شاداب