EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

خاک ہوں لیکن سراپا نور ہے میرا وجود
اس زمیں پر چاند سورج کا نمائندہ ہوں میں

انور سدید




کھلی زبان تو ظرف ان کا ہو گیا ظاہر
ہزار بھید چھپا رکھے تھے خموشی میں

انور سدید




کوئی بھی پیچیدگی حائل نہیں انور سدیدؔ
زندگی ہے سامنے منظر بہ منظر اور میں

انور سدید




پنکھ ہلا کر شام گئی ہے اس آنگن سے
اب اترے گی رات انوکھی یادوں والی

انور سدید




سیل زماں میں ڈوب گئے مشہور زمانہ لوگ
وقت کے منصف نے کب رکھا قائم ان کا نام

انور سدید




شکوہ کیا زمانے کا تو اس نے یہ کہا
جس حال میں ہو زندہ رہو اور خوش رہو

انور سدید




تو جسم ہے تو مجھ سے لپٹ کر کلام کر
خوشبو ہے گر تو دل میں سمٹ کر کلام کر

انور سدید