EN हिंदी
تو جسم ہے تو مجھ سے لپٹ کر کلام کر | شیح شیری
tu jism hai to mujhse lipaT kar kalam kar

غزل

تو جسم ہے تو مجھ سے لپٹ کر کلام کر

انور سدید

;

تو جسم ہے تو مجھ سے لپٹ کر کلام کر
خوشبو ہے گر تو دل میں سمٹ کر کلام کر

میں اجنبی نہیں ہوں مجھے روند کر نہ جا
نظریں ملا کے دیکھ پلٹ کر کلام کر

بالائے بام آنے کا گر حوصلہ نہیں
پلکوں کی چلمنوں میں سمٹ کر کلام کر

قوس قزح کے رنگ میسر نہیں تو پھر
دریا کی موج موج میں بٹ کر کلام کر

جنت میں یا تو مجھ کو پرانا مقام دے
یا آ مری زمیں میں پلٹ کر کلام کر

انور سدیدؔ عام سا بندہ ہے اس کے ساتھ
مٹی پہ بیٹھ گرد میں اٹ کر کلام کر