سفینہ لے گئے موجوں کی گرم جوشی میں
ہزیمت آئی نظر جب کنارا کوشی میں
نشہ چڑھا تو زباں پر نہ اختیار رہا
وہ منکشف ہوئے خود اپنی بادہ نوشی میں
بنا لیا اسے ثانی پھر اپنی فطرت کا
سکوں جو ملنے لگا ان کو زہر نوشی میں
قبول رب کریم و رحیم نے کر لی
مری زباں پہ جو آئی دعا خموشی میں
کھلی زبان تو ظرف ان کا ہو گیا ظاہر
ہزار بھید چھپا رکھے تھے خموشی میں
پسند کی نہ زمانے نے سادگی میری
بھرم رکھا ہے خدا نے سفید پوشی میں
زد عتاب میں ان کے جو آ گئے انورؔ
نہ جانے کہہ گئے کیا کیا وہ گرم جوشی میں
غزل
سفینہ لے گئے موجوں کی گرم جوشی میں
انور سدید