اپنے دل کی عادت ہے شہزادوں والی
جلتی رکھتا ہے قندیل مرادوں والی
ویرانے پر بن برسا اک بادل ہوں میں
بوجھل آنکھیں اور صورت ناشادوں والی
پنکھ ہلا کر شام گئی ہے اس آنگن سے
اب اترے گی رات انوکھی یادوں والی
دل کے طاق میں روزانہ ہی سجاتا ہوں میں
اک دن دیکھی مورت سرخ لبادوں والی
اب تک میری آنکھوں میں گل زار کھلا ہے
دیکھی تھی وہ ساعت نیک ارادوں والی
کیوں نہ رہے اس دل میں اس کی کرچی
اک تمثیل جو دیکھی تھی فریادوں والی
غزل
اپنے دل کی عادت ہے شہزادوں والی
انور سدید