زور سے آندھی چلی تو بجھ گئے سارے چراغ
گم ہوئے جاتے ہیں تاریکی میں منظر اور میں
ہاتھ سے بچوں کے نکلے میری جھولی میں گرے
بن گئے ہیں دوست یہ بچوں کے پتھر اور میں
پر نہیں لیکن میسر طاقت پرواز ہے
دیکھیے اڑتے فضاؤں میں کبوتر اور میں
اب طمانیت بہت محسوس ہوتی ہے مجھے
ہو گیا ہے ہم سخن نیلا سمندر اور میں
کیسے کیسے خوبرو چہرے تھے سب کے سامنے
محو حیرت ہو گیا ہے سارا دفتر اور میں
کوئی بھی پیچیدگی حائل نہیں انور سدیدؔ
زندگی ہے سامنے منظر بہ منظر اور میں

غزل
زور سے آندھی چلی تو بجھ گئے سارے چراغ (ردیف .. ن)
انور سدید