EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اس کے بغیر زندگی کتنی فضول ہے
تصویر اس کی دل سے جدا کر کے دیکھتے

انور سدید




یوں تسلی کو تو اک یاد بھی کافی تھی مگر
دل کو تسکین ترے لوٹ کے آنے سے ملی

انور سدید




زمیں کا رزق ہوں لیکن نظر فلک پر ہے
کہو فلک سے مرے راستے سے ہٹ جائے

انور سدید




جب فصل بہاراں آتی ہے شاداب گلستاں ہوتے ہیں
تکمیل جنوں بھی ہوتی ہے اور چاک گریباں ہوتے ہیں

انور سہارنپوری




جلوۂ یار دیکھ کر طور پہ غش ہوئے کلیم
عقل و خرد کا کام کیا محفل حسن و ناز میں

انور سہارنپوری




مقدر سے مرے دونوں کے دونوں بے وفا نکلے
نہ عمر بے وفا پلٹی نہ پھر جا کر شباب آیا

انور سہارنپوری




نیچی نظروں سے کر دیا گھائل
اب یہ سمجھے کہ یہ حیا کیا ہے

انور سہارنپوری