اس کے بغیر زندگی کتنی فضول ہے
تصویر اس کی دل سے جدا کر کے دیکھتے
انور سدید
یوں تسلی کو تو اک یاد بھی کافی تھی مگر
دل کو تسکین ترے لوٹ کے آنے سے ملی
انور سدید
زمیں کا رزق ہوں لیکن نظر فلک پر ہے
کہو فلک سے مرے راستے سے ہٹ جائے
انور سدید
جب فصل بہاراں آتی ہے شاداب گلستاں ہوتے ہیں
تکمیل جنوں بھی ہوتی ہے اور چاک گریباں ہوتے ہیں
انور سہارنپوری
جلوۂ یار دیکھ کر طور پہ غش ہوئے کلیم
عقل و خرد کا کام کیا محفل حسن و ناز میں
انور سہارنپوری
مقدر سے مرے دونوں کے دونوں بے وفا نکلے
نہ عمر بے وفا پلٹی نہ پھر جا کر شباب آیا
انور سہارنپوری
نیچی نظروں سے کر دیا گھائل
اب یہ سمجھے کہ یہ حیا کیا ہے
انور سہارنپوری

