EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دم وصال تری آنچ اس طرح آئی
کہ جیسے آگ سلگنے لگے گلابوں میں

انور سدید




دکھ کے طاق پہ شام ڈھلے
کس نے دیا جلایا تھا

انور سدید




گھپ اندھیرے میں بھی اس کا جسم تھا چاندی کا شہر
چاند جب نکلا تو وہ سونا نظر آیا مجھے

انور سدید




ہم نے ہر سمت بچھا رکھی ہیں آنکھیں اپنی
جانے کس سمت سے آ جائے سواری تیری

انور سدید




جاگتی آنکھ سے جو خواب تھا دیکھا انورؔ
اس کی تعبیر مجھے دل کے جلانے سے ملی

انور سدید




جو پھول جھڑ گئے تھے جو آنسو بکھر گئے
خاک چمن سے ان کا پتا پوچھتا رہا

انور سدید




کل شام پرندوں کو اڑتے ہوئے یوں دیکھا
بے آب سمندر میں جیسے ہو رواں پانی

انور سدید