عہد حاضر اک مشین اور اس کا کارندہ ہوں میں
ریزہ ریزہ روح میری ہے مگر زندہ ہوں میں
میں ہوں وہ لمحہ جو مٹھی میں سما سکتا نہیں
پل میں ہوں امروز و ماضی پل میں آئندہ ہوں میں
وہ جو مجھ کو پھینک آئے بھیڑیوں کے سامنے
کیا گلہ شکوہ کہ ان سے آپ شرمندہ ہوں میں
میرے لفظوں میں اگر تاب و توانائی نہیں
اے خدا کیوں دہر میں تیرا نمائندہ ہوں میں
میں جو کہتا ہوں سمجھتا ہی نہیں کوئی اسے
جیسے ملبے میں دبی بستی کا باشندہ ہوں میں
میرے چہرے پر منقش اس طرح تاریخ ہے
جیسے اک کہنہ عجائب گھر کا باشندہ ہوں میں
خاک ہوں لیکن سراپا نور ہے میرا وجود
اس زمیں پر چاند سورج کا نمائندہ ہوں میں
اس جہاں میں میں ہی مسجود ملائک تھا سدیدؔ
اس جہاں میں آج کے انساں سے شرمندہ ہوں میں
غزل
عہد حاضر اک مشین اور اس کا کارندہ ہوں میں
انور سدید