EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہر اک ندی سے کڑی پیاس لے کے وہ گزرا
یہ اور بات کہ وہ خود بھی ایک دریا تھا

عنبر بہرائچی




ہر پھول پہ اس شخص کو پتھر تھے چلانے
اشکوں سے ہر اک برگ کو بھرنا تھا ہمیں بھی

عنبر بہرائچی




اک شفاف طبیعت والا صحرائی
شہر میں رہ کر کس درجہ چالاک ہوا

عنبر بہرائچی




جان دینے کا ہنر ہر شخص کو آتا نہیں
سوہنی کے ہاتھ میں کچا گھڑا تھا دیکھتے

عنبر بہرائچی




جانے کیا برسا تھا رات چراغوں سے
بھور سمے سورج بھی پانی پانی ہے

عنبر بہرائچی




جانے کیا سوچ کے پھر ان کو رہائی دے دی
ہم نے اب کے بھی پرندوں کو تہہ دام کیا

عنبر بہرائچی




میرا کرب مری تنہائی کی زینت
میں چہروں کے جنگل کا سناٹا ہوں

عنبر بہرائچی