جلتے ہوئے جنگل سے گزرنا تھا ہمیں بھی
پھر برف کے صحرا میں ٹھہرنا تھا ہمیں بھی
میعار نوازی میں کہاں اس کو سکوں تھا
اس شوخ کی نظروں سے اترنا تھا ہمیں بھی
جاں بخش تھا پل بھر کے لیے لمس کسی کا
پھر کرب کے دریا میں اترنا تھا ہمیں بھی
یاروں کی نظر ہی میں نہ تھے پنکھ ہمارے
خود اپنی اڑانوں کو کترنا تھا ہمیں بھی
وہ شہد میں ڈوبا ہوا لہجہ وہ تخاطب
اخلاص کے وہ رنگ کہ ڈرنا تھا ہمیں بھی
یاد آئے جو قدروں کے مہکتے ہوئے گلبن
چاندی کے حصاروں سے ابھرنا تھا ہمیں بھی
سونے کے ہنڈولے میں وہ خوش پوش مگن تھا
موسم بھی سہانا تھا سنورنا تھا ہمیں بھی
ہر پھول پہ اس شخص کو پتھر تھے چلانے
اشکوں سے ہر اک برگ کو بھرنا تھا ہمیں بھی
اس کو تھا بہت ناز خد و خال پہ عنبرؔ
اک روز تہ خاک بکھرنا تھا ہمیں بھی
غزل
جلتے ہوئے جنگل سے گزرنا تھا ہمیں بھی
عنبر بہرائچی