گیلی مٹی ہاتھ میں لے کر بیٹھا ہوں
ذہن میں اک دھندلے پیکر سے الجھا ہوں
پیس رہا ہے دل کو اک وزنی پتھر
دوب کو بانہوں میں بھر کر میں ہنستا ہوں
تیرے ہاتھوں نے مجھ میں سب رنگ بھرے
لیکن ہر پل یہ احساس ادھورا ہوں
دھوپ کبھی چمکے گی اس امید پہ میں
برف کے دریا میں صدیوں سے لیٹا ہوں
اس جانب کب اودے بادل نے دیکھا
پھر بھی میں تنہا سرسبز جزیرہ ہوں
میرا کرب مری تنہائی کی زینت
میں چہروں کے جنگل کا سناٹا ہوں
اک دھندلی تصویر ابھی آنکھوں میں ہے
اس وادی سے دور بھلا کب رہتا ہوں
رات افق پر کچھ سائے لہرائے تھے
عنبرؔ اب تک آس لگائے بیٹھا ہوں
غزل
گیلی مٹی ہاتھ میں لے کر بیٹھا ہوں
عنبر بہرائچی