EN हिंदी
گلاب تھا نہ کنول پھر بدن وہ کیسا تھا | شیح شیری
gulab tha na kanwal phir badan wo kaisa tha

غزل

گلاب تھا نہ کنول پھر بدن وہ کیسا تھا

عنبر بہرائچی

;

گلاب تھا نہ کنول پھر بدن وہ کیسا تھا
کہ جس کا لمس بہاروں میں رنگ بھرتا تھا

جہاں پہ سادہ دلی کے مکیں تھے کچھ پیکر
وہ جھونپڑا تھا مگر پر شکوہ کتنا تھا

مشام جاں سے گزرتی رہی ہے تازہ ہوا
ترا خیال کھلے آسمان جیسا تھا

اسی کے ہاتھ میں تمغے ہیں کل جو میداں میں
ہماری چھاؤں میں اپنا بچاؤ کرتا تھا

یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ
مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا

ہر اک ندی سے کڑی پیاس لے کے وہ گزرا
یہ اور بات کہ وہ خود بھی ایک دریا تھا

وہ ایک جست میں نظروں سے دور تھا عنبرؔ
خلا میں صرف سنہرا غبار پھیلا تھا