جو تم ہو تو یہ کیسے مان لوں میں
کہ جو کچھ ہے یہاں بس اک گماں ہے
عنبرین حسیب عنبر
کیا جانئے کیا سوچ کے افسردہ ہوا دل
میں نے تو کوئی بات پرانی نہیں لکھی
عنبرین حسیب عنبر
کیا خوب تماشہ ہے یہ کار گہ ہستی
ہر جسم سلامت ہے ہر ذات ادھوری ہے
عنبرین حسیب عنبر
لفظ کی حرمت مقدم ہے دل و جاں سے مجھے
سچ تعارف ہے مرے ہر شعر ہر تحریر کا
عنبرین حسیب عنبر
مانوس بام و در سے نظر پوچھتی رہی
ان میں بسے وہ لوگ پرانے کہاں گئے
عنبرین حسیب عنبر
محبت اور قربانی میں ہی تعمیر مضمر ہے
در و دیوار سے بن جائے گھر ایسا نہیں ہوتا
عنبرین حسیب عنبر
مجھ میں اب میں نہیں رہی باقی
میں نے چاہا ہے اس قدر تم کو
عنبرین حسیب عنبر