جگمگاتی روشنی کے پار کیا تھا دیکھتے
دھول کا طوفاں اندھیرے بو رہا تھا دیکھتے
سبز ٹہنی پر مگن تھی فاختہ گاتی ہوئی
ایک شکرہ پاس ہی بیٹھا ہوا تھا دیکھتے
ہم اندھیرے ٹاپوؤں میں زندگی کرتے رہے
چاندنی کے دیس میں کیا ہو رہا تھا دیکھتے
جان دینے کا ہنر ہر شخص کو آتا نہیں
سوہنی کے ہاتھ میں کچا گھڑا تھا دیکھتے
ذہن میں بستی رہی ہر بار جوہی کی کلی
بیر کے جنگل سے ہم کو کیا ملا تھا دیکھتے
آم کے پیڑوں کے سارے پھل سنہرے ہو گئے
اس برس بھی راستہ کیوں رو رہا تھا دیکھتے
اس کے ہونٹوں کے تبسم پہ تھے سب چونکے ہوئے
اس کی آنکھوں کا سمندر کیا ہوا تھا دیکھتے
رات اجلے پیرہن والے تھے خوابوں میں مگن
دودھیا پونم کو کس نے ڈس لیا تھا دیکھتے
بیچ میں دھندلے مناظر تھے اگرچہ صف بہ صف
پھر بھی عنبرؔ حاشیہ تو ہنس رہا تھا دیکھتے
غزل
جگمگاتی روشنی کے پار کیا تھا دیکھتے
عنبر بہرائچی