EN हिंदी
گردش کا اک لمحہ یوں بیباک ہوا | شیح شیری
gardish ka ek lamha yun bebak hua

غزل

گردش کا اک لمحہ یوں بیباک ہوا

عنبر بہرائچی

;

گردش کا اک لمحہ یوں بیباک ہوا
سونے چاندی کا ہر منظر خاک ہوا

نہر کنارے ایک سمندر پیاسا ہے
ڈھلتے ہوئے سورج کا سینہ چاک ہوا

اک شفاف طبیعت والا صحرائی
شہر میں رہ کر کس درجہ چالاک ہوا

شب اجلی دستاریں کیا سر گرم ہوئیں
بھور سمے سارا منظر نمناک ہوا

وہ تو اجالوں جیسا تھا اس کی خاطر
آنے والا ہر لمحہ سفاک ہوا

خال و خد منظر پیکر اور گل بوٹے
خوب ہوئے میرے ہاتھوں میں چاک ہوا

اک تالاب کی لہروں سے لڑتے لڑتے
وہ بھی کالے دریا کا پیراک ہوا

موسم نے کروٹ لی کیا آندھی آئی
اب کے تو کہسار خس و خاشاک ہوا

باطن کی ساری لہریں تھیں جوبن پر
اس کے عارض کا تل بھی بیباک ہوا

چند سہانے منظر کچھ کڑوی یادیں
آخر عنبرؔ کا بھی قصہ پاک ہوا