ہر لمحہ سیرابی کی ارزانی ہے
مٹی کے کوزے میں ٹھنڈا پانی ہے
چپکے چپکے روتا ہے تنہائی میں
وہ جو شہر کے ہر میلے کا بانی ہے
ندی کنارے شہر پناہیں بالوں کی
ساون کی بوچھاریں ہیں طغیانی ہے
باہر دھوپ سمندر سرخ بگولے بھی
اندر ہر خلیے میں رت برفانی ہے
اس نے ہرذرے کو طلسم آباد کیا
ہاتھ ہمارے لگی فقط حیرانی ہے
میرے دشت کو شاید اس نے دیکھ لیا
دھوپ شبنمی ہر سو منظر دھانی ہے
جانے کیا برسا تھا رات چراغوں سے
بھور سمے سورج بھی پانی پانی ہے
اس نے ہر لمحہ خود کو یوں رام کیا
ہر پیکر میں اس کی رام کہانی ہے
کچا گھر آتا ہے یاد بہت عنبرؔ
کہنے کو شہروں میں ہر آسانی ہے
غزل
ہر لمحہ سیرابی کی ارزانی ہے
عنبر بہرائچی