آج پھر دھوپ کی شدت نے بڑا کام کیا
ہم نے اس دشت کو لمحوں میں کنول فام کیا
میرے حجرے کو بھی تشہیر ملی اس کے سبب
اور آندھی نے بھی اس بار بہت نام کیا
روز ہم جلتی ہوئی ریت پہ چلتے ہی نہ تھے
ہم نے سائے میں کجھوروں کے بھی آرام کیا
دل کی بانہوں میں سجاتے رہے آہوں کی دھنک
ذہن کو ہم نے رہ عشق میں گم نام کیا
شہر میں رہ کے یہ جنگل کی ادا بھول گئے
ہم نے ان شوخ غزالوں کو عبث رام کیا
اپنے پیروں میں بھی بجلی کی ادائیں تھیں مگر
دیکھ کر طور جہاں خود کو سبک گام کیا
شاہراہوں پہ ہمیں تو نہیں مصلوب ہوئے
قتل مہتاب نے خود کو بھی لب بام کیا
جانے کیا سوچ کے پھر ان کو رہائی دے دی
ہم نے اب کے بھی پرندوں کو تہہ دام کیا
ختم ہو گی یہ کڑی دھوپ بھی عنبرؔ دیکھو
ایک کہسار کو موسم نے گل اندام کیا
غزل
آج پھر دھوپ کی شدت نے بڑا کام کیا
عنبر بہرائچی