EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بھول جوتے ہیں مسافر رستہ
لوگ کہتے ہیں کہانی پھر بھی

عنبرین حسیب عنبر




دل جن کو ڈھونڈھتا ہے نہ جانے کہاں گئے
خواب و خیال سے وہ زمانے کہاں گئے

عنبرین حسیب عنبر




دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی
ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا

عنبرین حسیب عنبر




فیصلہ بچھڑنے کا کر لیا ہے جب تم نے
پھر مری تمنا کیا پھر مری اجازت کیوں

عنبرین حسیب عنبر




ہم تو سنتے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ
تو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی

عنبرین حسیب عنبر




اک حسیں خواب کہ آنکھوں سے نکلتا ہی نہیں
ایک وحشت ہے کہ تعبیر ہوئی جاتی ہے

عنبرین حسیب عنبر




اس عارضی دنیا میں ہر بات ادھوری ہے
ہر جیت ہے لا حاصل ہر مات ادھوری ہے

عنبرین حسیب عنبر