EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

روز ہم جلتی ہوئی ریت پہ چلتے ہی نہ تھے
ہم نے سائے میں کجھوروں کے بھی آرام کیا

عنبر بہرائچی




سوپ کے دانے کبوتر چک رہا تھا اور وہ
صحن کو مہکا رہی تھی سنتیں پڑھتے ہوئے

عنبر بہرائچی




اس نے ہرذرے کو طلسم آباد کیا
ہاتھ ہمارے لگی فقط حیرانی ہے

عنبر بہرائچی




یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ
مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا

عنبر بہرائچی




اب کے ہم نے بھی دیا ترک تعلق کا جواب
ہونٹ خاموش رہے آنکھ نے بارش نہیں کی

عنبرین حسیب عنبر




اے آسماں کس لیے اس درجہ برہمی
ہم نے تو تری سمت اشارا نہیں کیا

عنبرین حسیب عنبر




عیاں دونوں سے تکمیل جہاں ہے
زمیں گم ہو تو پھر کیا آسماں ہے

عنبرین حسیب عنبر