ہار کے بھی نہیں مٹی دل سے خلش حیات کی
کتنے نظام مٹ گئے جشن ظفر کے بعد بھی
علی جواد زیدی
ہیں وجود شے میں پنہاں ازل و ابد کے رشتے
یہاں کچھ نہیں دو روزہ کوئی شے نہیں ہے فانی
علی جواد زیدی
ہم اہل دل نے معیار محبت بھی بدل ڈالے
جو غم ہر فرد کا غم ہے اسی کو غم سمجھتے ہیں
علی جواد زیدی
ہجر کی رات یہ ہر ڈوبتے تارے نے کہا
ہم نہ کہتے تھے نہ آئیں گے وہ آئے تو نہیں
علی جواد زیدی
جب چھیڑتی ہیں ان کو گمنام آرزوئیں
وہ مجھ کو دیکھتے ہیں میری نظر بچا کے
علی جواد زیدی
جب کبھی دیکھا ہے اے زیدیؔ نگاہ غور سے
ہر حقیقت میں ملے ہیں چند افسانے مجھے
علی جواد زیدی
جن حوصلوں سے میرا جنوں مطمئن نہ تھا
وہ حوصلے زمانے کے معیار ہو گئے
علی جواد زیدی