جو مقصد گریۂ پیہم کا ہے وہ ہم سمجھتے ہیں
مگر جن کو سمجھنا چاہیئے تھا کم سمجھتے ہیں
ذرا میرے جنوں کی کاوش تعمیر تو دیکھیں
جو بزم زندگی کو درہم و برہم سمجھتے ہیں
ان آنکھوں میں نہیں نشتر خود اپنے دل میں پنہاں ہے
اب اتنی بات تو کچھ ہم بھی اے ہمدم سمجھتے ہیں
یہ ان کی مہربانی ہے یہ ان کی عزت افزائی
کہ میرے زخم کو وہ لائق مرہم سمجھتے ہیں
ہم اہل دل نے معیار محبت بھی بدل ڈالے
جو غم ہر فرد کا غم ہے اسی کو غم سمجھتے ہیں
جھجکتے سے قدم بہکی سی نظریں رکتی سی باتیں
یہ انداز تجاہل وہ ہے جس کو ہم سمجھتے ہیں
سلوک دوست بھی ہے اک اشارہ تیزگامی کا
ہم اہل کارواں آنچل کو بھی پرچم سمجھتے ہیں
ہٹو اہل خرد اہل جنوں کو جانے دو آگے
وہی کچھ راہ ہستی کے یہ پیچ و خم سمجھتے ہیں
پلک سے اس طرح ٹپکا کہ گویا اک کلی چٹکی
ہم اہل درد اشک غم کو بھی شبنم سمجھتے ہیں
خلوص ظاہری روزانہ اک محفل سجاتا ہے
سمجھتے وہ بھی ہیں لیکن ابھی کم کم سمجھتے ہیں
غزل
جو مقصد گریۂ پیہم کا ہے وہ ہم سمجھتے ہیں
علی جواد زیدی