اسی لیے تو ہے زنداں کو جستجو میری
کہ مفلسی کو سکھائی ہے سرکشی میں نے
علی سردار جعفری
کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا
راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا
علی سردار جعفری
کمی کمی سی تھی کچھ رنگ و بوئے گلشن میں
لب بہار سے نکلی ہوئی دعا تم ہو
علی سردار جعفری
پرتو سے جس کے عالم امکاں بہار ہے
وہ نو بہار ناز ابھی رہ گزر میں ہے
علی سردار جعفری
پھوٹنے والی ہے مزدور کے ماتھے سے کرن
سرخ پرچم افق صبح پہ لہراتے ہیں
علی سردار جعفری
پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں
نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے
علی سردار جعفری
پیاس جہاں کی ایک بیاباں تیری سخاوت شبنم ہے
پی کے اٹھا جو بزم سے تیری اور بھی تشنہ کام اٹھا
علی سردار جعفری