آنکھوں میں اشک بھر کے مجھ سے نظر ملا کے
نیچی نگاہ اٹھی فتنے نئے جگا کے
میں راگ چھیڑتا ہوں ایمائے حسن پا کے
دیکھو تو میری جانب اک بار مسکرا کے
دنیائے مصلحت کے یہ بند کیا تھمیں گے
بڑھ جائے گا زمانہ طوفاں نئے اٹھا کے
جب چھیڑتی ہیں ان کو گمنام آرزوئیں
وہ مجھ کو دیکھتے ہیں میری نظر بچا کے
دیدار کی تمنا کل رات رکھ رہی تھی
خوابوں کی رہگزر میں شمعیں جلا جلا کے
دوری نے لاکھ جلوے تخلیق کر لیے تھے
پھر دور ہو گئے ہم تیرے قریب آ کے
شام فراق ایسا محسوس ہو رہا ہے
ہر ایک شے گنوا دی ہر ایک شے کو پا کے
آئی ہے یاد جن کی طوفان درد بن کے
وہ زخم میں نے اکثر کھائے ہیں مسکرا کے
میری نگاہ غم میں شکوے ہی سب نہیں ہیں
اک بار ادھر تو دیکھو نیچی نظر اٹھا کے
یہ دشمنی ہے ساقی یا دوستی ہے ساقی
اوروں کو جام دینا مجھ کو دکھا دکھا کے
دل کے قریب شاید طوفان اٹھ رہے ہوں
دیکھو تو شعر زیدیؔ اک روز گنگنا کے
غزل
آنکھوں میں اشک بھر کے مجھ سے نظر ملا کے
علی جواد زیدی