اک آہ زیر لب کے گنہ گار ہو گئے
اب ہم بھی داخل صف اغیار ہو گئے
جس درد کو سمجھتے تھے ہم ان کا فیض خاص
اس درد کے بھی لاکھ خریدار ہو گئے
جن حوصلوں سے میرا جنوں مطمئن نہ تھا
وہ حوصلے زمانے کے معیار ہو گئے
ساقی کے اک اشارے نے کیا سحر کر دیا
ہم بھی شکار اندک و بسیار ہو گئے
اب ان لبوں میں شہد و شکر گھل گئے تو کیا
جب ہم ہلاک تلخی گفتار ہو گئے
ہر وعدہ جیسے حرف غلط تھا سراب تھا
ہم تو نثار جرأت انکار ہو گئے
تیری نظر پیام یقیں دے گئی مگر
کچھ تازہ وسوسے بھی تو بیدار ہو گئے
اس مے کدے میں اچھلی ہے دستار بارہا
واعظ یہاں کہاں سے نمودار ہو گئے
سرسبز پتیوں کا لہو چوس چوس کر
کتنے ہی پھول رونق گلزار ہو گئے
زیدیؔ نے تازہ شعر سنائے برنگ خاص
ہم بھی فدائے شوخی انکار ہو گئے
غزل
اک آہ زیر لب کے گنہ گار ہو گئے
علی جواد زیدی