EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دیار سجدہ میں تقلید کا رواج بھی ہے
جہاں جھکی ہے جبیں ان کا نقش پا تو نہیں

علی جواد زیدی




دکھا دی میں نے وہ منزل جو ان دونوں کے آگے ہے
پریشاں ہیں کہ آخر اب کہیں کیا کفر و دیں مجھ سے

علی جواد زیدی




دل کا لہو نگاہ سے ٹپکا ہے بارہا
ہم راہ غم میں ایسی بھی منزل سے آئے ہیں

علی جواد زیدی




دل میں جو درد ہے وہ نگاہوں سے ہے عیاں
یہ بات اور ہے نہ کہیں کچھ زباں سے ہم

علی جواد زیدی




ایک تمہاری یاد نے لاکھ دیے جلائے ہیں
آمد شب کے قبل بھی ختم سحر کے بعد بھی

علی جواد زیدی




غضب ہوا کہ ان آنکھوں میں اشک بھر آئے
نگاہ یاس سے کچھ اور کام لینا تھا

علی جواد زیدی




گفتگو کے ختم ہو جانے پر آیا یہ خیال
جو زباں تک آ نہیں پایا وہی تو دل میں تھا

علی جواد زیدی