دیار سجدہ میں تقلید کا رواج بھی ہے
جہاں جھکی ہے جبیں ان کا نقش پا تو نہیں
علی جواد زیدی
دکھا دی میں نے وہ منزل جو ان دونوں کے آگے ہے
پریشاں ہیں کہ آخر اب کہیں کیا کفر و دیں مجھ سے
علی جواد زیدی
دل کا لہو نگاہ سے ٹپکا ہے بارہا
ہم راہ غم میں ایسی بھی منزل سے آئے ہیں
علی جواد زیدی
دل میں جو درد ہے وہ نگاہوں سے ہے عیاں
یہ بات اور ہے نہ کہیں کچھ زباں سے ہم
علی جواد زیدی
ایک تمہاری یاد نے لاکھ دیے جلائے ہیں
آمد شب کے قبل بھی ختم سحر کے بعد بھی
علی جواد زیدی
غضب ہوا کہ ان آنکھوں میں اشک بھر آئے
نگاہ یاس سے کچھ اور کام لینا تھا
علی جواد زیدی
گفتگو کے ختم ہو جانے پر آیا یہ خیال
جو زباں تک آ نہیں پایا وہی تو دل میں تھا
علی جواد زیدی