EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کسی کی آنکھ کا تارا ہوا کرتے تھے ہم بھی تو
اچانک شام کا تارا نظر آیا تو یاد آیا

علی افتخار جعفری




نیند آتی ہے مگر جاگ رہا ہوں سر خواب
آنکھ لگتی ہے تو یہ عمر گزر جانی ہے

علی افتخار جعفری




تم کسی سنگ پہ اب سر کو ٹکا کر سو جاؤ
کون سنتا ہے شب غم کا فسانا سر راہ

علی افتخار جعفری




آنکھوں میں لیے جلوۂ نیرنگ تماشا
آئی ہے خزاں جشن بہاراں سے گزر کے

علی جواد زیدی




اب درد میں وہ کیفیت درد نہیں ہے
آیا ہوں جو اس بزم گل افشاں سے گزر کے

علی جواد زیدی




اب نہ وہ شورش رفتار نہ وہ جوش جنوں
ہم کہاں پھنس گئے یاران سبک گام کے ساتھ

علی جواد زیدی




عیش ہی عیش ہے نہ سب غم ہے
زندگی اک حسین سنگم ہے

علی جواد زیدی