راہ الفت میں ملے ایسے بھی دیوانے مجھے
جو مآل دوستی آئے تھے سمجھانے مجھے
عشق کی ہلکی سی پہلی آنچ ہی میں جل بجھے
کیا بھلا درس وفا دیں گے یہ پروانے مجھے
یہ تو کہئے بے خودی سے مل گئی کچھ آگہی
ورنہ دھوکا دے دیا تھا چشم بینا نے مجھے
نامرادی لوٹ ہی لیتی متاع آرزو
اک سہارا دے دیا احساس فردا نے مجھے
کس سے کہتا دل کی باتیں کس سے سنتا ان کا راز
بزم میں تو سب نظر آتے ہیں بیگانے مجھے
توبہ توبہ ناامیدی کی خیال آرائیاں
دیکھتے ہوں جیسے خود للچا کے پیمانے مجھے
میرا اک ادنیٰ سا پرتو ہے نظام کائنات
کیا سمجھ رکھا ہے اس محدود دنیا نے مجھے
جب کبھی دیکھا ہے اے زیدیؔ نگاہ غور سے
ہر حقیقت میں ملے ہیں چند افسانے مجھے

غزل
راہ الفت میں ملے ایسے بھی دیوانے مجھے
علی جواد زیدی