ہے خموش آنسوؤں میں بھی نشاط کامرانی
کوئی سن رہا ہے شاید مری دکھ بھری کہانی
یہی تھرتھراتے آنسو یہی نیچی نیچی نظریں
یہی ان کی بھی نشانی یہی اپنی بھی نشانی
یہ نظام بزم ساقی کہیں رہ سکے گا باقی
کہ خوشی تو چند لمحے غم و درد جاودانی
ہیں وجود شے میں پنہاں ازل و ابد کے رشتے
یہاں کچھ نہیں دو روزہ کوئی شے نہیں ہے فانی
تری بات کیا ہے واعظ مرا دل وہ ہے کہ جس نے
اسی مے کدے میں اکثر مری بات بھی نہ مانی
پئے رفع بدگمانی میں وفا برت رہا تھا
مری پے بہ پے وفا سے بڑھی اور بدگمانی
مرا مے کدہ سلامت کہ ہر ایک قید اٹھا دی
نہ تو دیر کی غلامی نہ حرم کی پاسبانی
کروں ان سے لاکھ شکوے مگر ان سے شکوہ کرنا
نہ طریقۂ محبت نہ روایت جوانی
غزل
ہے خموش آنسوؤں میں بھی نشاط کامرانی
علی جواد زیدی