منزل دل ملی کہاں ختم سفر کے بعد بھی
رہ گزر ایک اور تھی راہ گزر کے بعد بھی
آج ترے سوال پر پھر مرے لب خموش ہیں
ایسی ہی کشمکش تھی کچھ پہلی نظر کے بعد بھی
دل میں تھے لاکھ وسوسے جلوۂ آفتاب تک
رہ گئی تھی جو تیرگی نور سحر کے بعد بھی
ناصح مصلحت نواز تجھ کو بتاؤں کیا یہ راز
حوصلۂ نگاہ ہے خون جگر کے بعد بھی
ہار کے بھی نہیں مٹی دل سے خلش حیات کی
کتنے نظام مٹ گئے جشن ظفر کے بعد بھی
کوئی مرا ہی آشیاں حاصل فصل گل نہ تھا
ہاں یہ بہار ہے بہار رقص شرر کے بعد بھی
ایک تمہاری یاد نے لاکھ دیے جلائے ہیں
آمد شب کے قبل بھی ختم سحر کے بعد بھی
غزل
منزل دل ملی کہاں ختم سفر کے بعد بھی
علی جواد زیدی