EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اکملؔ آج کا انساں کتنا بے تحمل ہے
دل میں کچھ خلش ابھری اور داغ دی سازش

اکمل امام




اپنے احساس کی شدت کو بجھانے کے لئے
میں نئی طرز کے خوش فکر رسالے مانگوں

اکمل امام




فساد روکنے کم ظرف لوگ پہنچے ہیں
گھروں میں رہ گئے روشن ضمیر جتنے تھے

اکمل امام




ہر ایک حرف سے جینے کا فن نمایاں ہو
کچھ اس طرح کی عبارت نصاب میں لکھیے

اکمل امام




میرا سایہ بھی بڑھ گیا مجھ سے
اس سلیقہ سے گھٹ گیا ہوں میں

اکمل امام




نئی تحقیق نے قطروں سے نکالے دریا
ہم نے دیکھا ہے کہ ذروں سے زمانے نکلے

اکمل امام




انگلیوں کے ہنر سے اے اکملؔ
شکل پاتی ہے چاک پر مٹی

اکمل امام