ہجر کی شام سے زخموں کے دوشالے مانگوں
میں سیاہی کے سمندر سے اجالے مانگوں
جب نئی نسل نئی طرز سے جینا چاہے
کیوں نہ اس عہد سے دستور نرالے مانگوں
اپنے احساس کے صحرا میں تقدس چاہوں
اپنے جذبات کی گھاٹی میں شوالے مانگوں
اپنی آنکھوں کے لئے درد کے آنسو ڈھونڈوں
اپنے قدموں کے لئے پھول سے چھالے مانگوں
ہر نئے موڑ پہ چاہوں نئے رشتوں کا ہجوم
ہر قدم پر میں نئے چاہنے والے مانگوں
اپنے احساس کی شدت کو بجھانے کے لئے
میں نئی طرز کے خوش فکر رسالے مانگوں
دن کی سڑکوں پہ سجا کر نئی صبحیں اکملؔ
شب کی چوکھٹ کے لئے آہنی تالے مانگوں
غزل
ہجر کی شام سے زخموں کے دوشالے مانگوں
اکمل امام