گزرتے دوڑتے لمحے حساب میں لکھیے
حقیقتوں کی تمنا بھی خواب میں لکھیے
اذیتیں ہی نہ اپنی کتاب میں لکھیے
سکوں کا پل بھی تو سانسوں کے باب میں لکھیے
ہر ایک حرف سے جینے کا فن نمایاں ہو
کچھ اس طرح کی عبارت نصاب میں لکھیے
ہر ایک جنبش لب اور دل کی ہر دھڑکن
سدا یقین بنی انقلاب میں لکھیے
بصیرتوں کی ضیا پر نہ حرف آ جائے
میں عقل و ہوش ابھی تک حجاب میں لکھیے
سوال بن کے ابھرتے ہیں درد کے سورج
سکوں کا چاند ہی سب کے جواب میں لکھیے
ملی ہیں دن کی ادھوری مسافتیں شب کو
چمکتے شام و سحر کس حساب میں لکھیے
سلگتے جسم کا احساس درد کے جگنو
اندھیری شب کے گزرتے حساب میں لکھیے
غزل
گزرتے دوڑتے لمحے حساب میں لکھیے
اکمل امام