EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وقت اب دسترس میں ہے اخترؔ
اب تو میں جس جہان تک ہو آؤں

اختر عثمان




یہ کائنات مرے سامنے ہے مثل بساط
کہیں جنوں میں الٹ دوں نہ اس جہان کو میں

اختر عثمان




آس ڈوبی تو دل ہوا روشن
بجھ گیا دل تو دل کے داغ جلے

اختر ضیائی




بھلا چکے ہیں زمین و زماں کے سب قصے
سخن طراز ہیں لیکن خلا میں رہتے ہیں

اختر ضیائی




دفعتاً آندھیوں نے رخ بدلا
ناگہاں آرزو کے باغ جلے

اختر ضیائی




کوئی علاج غم زندگی بتا واعظ
سنے ہوئے جو فسانے ہیں پھر سنا نہ مجھے

اختر ضیائی




آرزو ٹیس کرب تنہائی
خود میں کتنا سمٹ گیا ہوں میں

اکمل امام