جب سے قسطوں میں بٹ گیا ہوں میں
اپنے محور سے ہٹ گیا ہوں میں
جب شناسا نہ مل سکا کوئی
اپنی جانب پلٹ گیا ہوں میں
میرا سایہ بھی بڑھ گیا مجھ سے
اس سلیقہ سے گھٹ گیا ہوں میں
مل گئے جو بھی مطمئن لمحے
ان سے فوراً لپٹ گیا ہوں میں
روشنی جب بڑھی مری جانب
دو قدم پیچھے ہٹ گیا ہوں میں
آرزو ٹیس کرب تنہائی
خود میں کتنا سمٹ گیا ہوں میں
اپنی پہچان ہو گئی مشکل
گرد میں اتنا اٹ گیا ہوں میں
غزل
جب سے قسطوں میں بٹ گیا ہوں میں
اکمل امام