EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

مری نگاہ کی وسعت بھی اس میں شامل کر
مری زمین پہ تیرا یہ آسماں کم ہے

اختر شمار




مدتوں میں آج دل نے فیصلہ آخر دیا
خوبصورت ہی سہی لیکن یہ دنیا جھوٹ ہے

اختر شمار




پہاڑ بھانپ رہا تھا مرے ارادے کو
وہ اس لیے بھی کہ تیشہ مجھے اٹھانا تھا

اختر شمار




تو نے ایک عمر کے بعد پوچھا ہے حال دل
وہی درد و غم وہی حسرتیں مرے ساتھ ہیں

اختر شمار




وہ مسکرا کے کوئی بات کر رہا تھا شمارؔ
اور اس کے لفظ بھی تھے چاندنی میں بکھرے ہوئے

اختر شمار




تیرا ہر راز چھپائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
خود کو دیوانہ بنائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی

اختر صدیقی




شام آئے اور گھر کے لیے دل مچل اٹھے
شام آئے اور دل کے لیے کوئی گھر نہ ہو

اختر عثمان